لاہور میں مظاہرین کے ہاتھوں جلایا جانے والا کور کمانڈر ہاؤس صرف اس لیے تاریخی اہمیت کا حامل نہیں کہ یہ ایک قدیم عمارت تھی جسے قومی ورثے کے تحت تحفظ حاصل تھا بلکہ اس کی اہمیت یوں بھی ہے کہ یہ لاہور میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا گھر تھا۔
اس عمارت کا شمار قائداعظم کی چار جائیدادوں میں ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ قائد اعظم نے کراچی اور لاہور والے جناح ہاؤس بمبئی میں واقع اپنا لٹلز گبز والا بنگلہ اور مے فیئر فلیٹ 1943 میں فروخت کر کے خریدے تھے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے اور انہیں کراچی اور لاہور میں رہائش
گاہوں کی ضرورت ہو گی۔
جناح ہاؤس لاہور کا سودا جسٹس فائز عیسیٰ کے والد نے کیا
نامور محقق اور سینیئر بیوروکریٹ ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ’محمد علی، دولت، جائیداد اور وصیت‘ میں لکھا ہے کہ قائد اعظم جب کوئٹہ تشریف لائے تو انہوں نے مسلم لیگی رہنما قاضی محمد عیسیٰ کے گھر قیام کیا۔ اس دوران قائداعظم ان کے گھر کے حسنِ تعمیر سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہیں کہا کہ جب آپ لاہور تشریف لائیں تو وہاں میرے لیے کوئی مکان دیکھیں۔
انہوں نے قاضی عیسیٰ کو یہ تجویز بھی کیا کہ لالہ موہن لال کا مکان برائے فروخت ہے، اگر آپ کو پسند آئے تو میری طرف سے سودا کر لیں۔ قاضی عیسیٰ نے کہا، ’یہ ضروری نہیں کہ میری پسند آپ کی بھی پسند ہو۔‘
قائد اعظم نے جواب دیا ’نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جو آپ کو پسند ہو گا وہی مجھے پسند ہو گا۔‘
یہ قاضی عیسیٰ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد تھے۔
جناح ہاؤس لاہور جہاں واقع ہے یہ جائیداد لالہ شیو دیال سیٹھ کے نام تھی، جو لاہور کی اہم سماجی شخصیت تھے اور تعمیرات سے وابستہ تھے۔ انہوں نے 1935 میں اپنی وفات سے کچھ سال پہلے یہ جائیداد خواجہ نذیر احمد کو فروخت کر دی جنہوں نے یہ جائیداد اپنی بیگم کے نام کر دی۔ ان کی بیگم نے یہ بنگلہ لالہ موہن لال بھابن کو فروخت کر دیا۔ قائداعظم نے یہ بنگلہ موہن لال سے جولائی 1943 میں ایک لاکھ 62 ہزار 500 روپے میں خریدا تھا۔
قائد اعظم نے جب یہ مکان خریدا تو اس سے پہلے ہی یہ بنگلہ برطانوی فوج نے کرائے پر حاصل کر رکھا تھا جس کا ماہانہ کرایہ علامتی طور پر پانچ روپے تھا کیوں کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت برطانوی فوج کوئی بھی جائیداد حاصل کر سکتی تھی۔
جب قائد اعظم نے یہ مکان خرید لیا تو فوج کی کرایہ داری کی میعاد ختم ہونے والی تھی تاہم فوج نے پھر اسی رول کے تحت اس میعاد میں توسیع کر لی۔
قائد اعظم اور برطانوی فوجی حکام کے درمیان ڈیڑھ سال خط و کتابت ہوتی رہی کیوں کہ قائد اعظم نہ صرف اپنے مکان کا قبضہ واپس لینا چاہتے تھے بلکہ انہیں اس مکان میں ہونے والی تعمیراتی تبدیلیوں پربھی اعتراض تھا۔
اس پر پنجاب کے سیکریٹری داخلہ مسٹر ولیمز نے مداخلت کی اور یکے بعد دیگرے تین آئی سی ایس افسران جی ڈی کھوسلہ، ایس این ہسکر اور شیخ عبد الرحمٰن کو ثالث مقرر کیا کہ وہ فوج اور مسٹر جناح کے درمیان معاملہ حل کروائیں۔
یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ قائد اعظم یہ گھر فوج سے خالی نہیں کروا سکے یا پھر ان کی مرضی کے مطابق کرائے میں 700 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ نئے معاہدے کی میعاد اپریل 1947 مقرر ہو ئی۔۔